Sunday 18 December 2011

سفید پوشی اور میرا حال


بہت خاموش سا
انجان تھا معصوم بھی
اشکوں کو سمندر کو روکتا ہوا
نقوش پہ طاری تھا حال
اور ماضی کا فسانہ بھی
ہاتھوں میں لۓ اّجرت حقیر سی
روح بھی کچھ علیل سی
ضبط اب بےحال تھا
نگاہ میں ہمت نہ رہی
 ذْلتوں کا پہاڑ ہے روبرو
قلب میں طوفان برپاہ ہے
گویا کانوں میں اذان برپاہ ہے
کوچے اب تنگ نطر آتے ہیں
کچھ اپنے اپنا سایہ چھپاتے ہوۓ
آنکھوں میں نفرت دل میں پیار لۓ ہوۓ
لعن طعن کی صدائیں
گونجتی ہوئی ہواؤں میں
بےبس ضمیر اور فکرِمعاش
لۓ مفلسی آنکھوں میں
یہی ہے سفید پوشی اور میرا حال

سّید حارث احمد