Monday 27 August 2012

شکستہ



 لفظوں  کی  اس  تلاش  میں۔ ۔
دل شکستہ ہے


اس  حالات  سے غمزدہ ۔ ۔
رونقیں اجڑ گیئں  خون  کے  سیلاب  میں
ان  معصوم  لاشو ں  پرآنسو  شکستہ  ہے


عبادت کا مفہوم بدلا ۔ ۔
اسلام کے ٹھکیدار بنے  چند  دستار  والے
اور ھم لئے دل میں ایمان  شکستہ  ہے



سہاگ رات بن گئی صف  ماتم
پوچھو اس دلہن  سے
جس کی بھری مانگ  شکستہ  ہے


جس ملک میں درسگاہیں بن چکی ہوں میدان جنگ
اس حال پر
ہر طالب علم کا قلم شکستہ  ہے



لوٹ آئیں گے میرے بابا ایک دن۔ ۔  
مجھے یقین ہے
سیاچن کے شہید کا کمسن بیٹے کی آنکھ شکستہ  ہے 




نام علی و حسین لینے کی سزا۔ ۔
 موت ہے تو موت سہی
ہاں ہاں اس جذبے پہ یزیدت کی روح شکستہ ہے




کفر کے نام پر تاثیری  ختم  کی۔ ۔
ایک نام نہاد غازی و قادری  نے
آج بیت گئے اس وقت کے بعد رمشاہ کی کمسنی  شکستہ  ہے

سّید حارث احمد 






1 comment: