Friday 26 October 2012

میں تنہا رہ گیا


ہر شام ہونے تک
تیرے اِنتظار میں
راہ تکتے ہوئے
میری بے چین نظریں اور
میں تنہا رہ گیا

وہ جو سانسیں
میری میراث تھیں
مجھے غیر محرم کر گئیں
رشتوں کی درجہ بندی میں
میں تنہا رہ گیا

نہ اٗمید مجھے
زمانے سے ہے
نہ اب تیرے ظرف سے
تجھے پانے کی خاطر
میں تنہا رہ گیا

مجھے رقیب کا خیال کیا
اور غیروں سےبھلا ملال کیا
خود سوال میرے دم توڑ گئے
شکست کھاتے اپنوں سے
میں تنہا رہ گیا

سّید حارث احمد

Monday 15 October 2012

میں ڈرتا ہوں

میں  ڈرتا  ہوں

جب اندھیری رات
اور بارش کی ٹِپ ٹِپ
میرے دروازے پہ دستک د یتی ہیں
میں  ڈرتا  ہوں

جب انجان ارواح کا جُھرمٹ  سیاہ بادلوں  پہ
اذانوں کی آواز پہ
رقص کرتے ہیں
میں  ڈرتا  ہوں

جب ہوا کا زور دار جھونکا
میرے جسم سے ٹکرا کر
 پیوند کی گا نٹھ کھولتا ہے
میں  ڈرتا  ہوں

زخموں کی تڑپ
اپنے اونی کپڑوں میں
جب کوئ چھپاۓ پھرتا ہے
میں  ڈرتا  ہوں

اور اب تو کیفیت یہ ہے
 مسکراتے چہرے اور پر جوش جذبات
دیکھ  کر
میں  ڈرتا  ہوں


سّید حارث احمد


Thursday 11 October 2012

میں ملالہ ھوں


آؤ مجھے ماردو
میں ملالہ ھوں

جس نے سجاٰۓ خولب
اس اندھیرے جہاں میں
آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں

میں بہادری کی مثال بنی
ان محصور اور محسود علاقوں میں
آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں

جہاں اسکول خاکستر ہوگۓ
وہاں علم کی شمع جلاٰئ میں نے
آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں

گر طاقت نہیں تھی مجھ میں
پرگل مکئ نے ہرایا تم کو
آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں

میر ا  مقصدِ   حیات
بھلائ ہی رہے گا
آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں

الفاظ دم توڑ گۓ
اِن شیاطین کے جہاد پہ
بس آؤ مجھے مار دو
میں ملالہ ھوں


سّید حارث احمد