Sunday 25 November 2012

نمازِ عشق اور سر زمینِ کربلا



By Syed Harris Ahmed

Saturday 24 November 2012

اکثر یہ بڑے پہاڑ




اکثر یہ بڑے پہاڑ
مجھ سے کچھ کہنا چاھتے ہیں
میں انکے قریب جاتا ہوں
یہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں
ملنے کی کوشش
دونوں جانب سے ہے
مگر
کبھی مجھے دیر ہوئی
تو کبھی وہ دیر کر جاتے ہیں


یہ درخت مجھے اپنے
رقیب سے محسوس ہوتے ہیں
یہ مجھ سے جلتے ہیں
مجھے اپنی چھاؤں سے دور کر کے
میری تڑپ کاموازنہ
 گرم تپش سے کرتے ہیں

پہاڑ بھی مجھے دیکھنے کا
منتظر لگتا ہے
جب بھی کھلے آکاش کے سائے تلے
اسے دل بھر کے جو دیکھوں
تو برف سے خود کو
ڈھانپ لیتا ہے
ھوا بھی شاملِ سازش ھے
تیز آوازوں سے
اسکے الفاظ دبا دیتی ہے
لہجے کو گونج نہیں دیتی
مجھے بے بس دیکھ کر
مۤسکراتی ہـے


رشک تو اِن چشموں کی قسمت پہ ہے
جو اِسکے درمیاں بہتے ہیں
اسکے چھو کر 
خود کو ؐمحزوظ کرتے ہیں
مجھے بے چین دیکھ کر
بہت اِترا کے چلتے ہیں


میں تو احسان مند بس
رِم جِھم کا رہـتا ہوں
جو میرے ارمانوں کا بھرم
بڑے شان سے رکھتی ہے
اّس پر برس کر
میرے پاس آتی ہے
اور اسکی خوشبـو سے
میرا دل بہلاتی ہے
مجھے دِلاسہ دیتی ہـے


سّید حارث احمد






Thursday 1 November 2012

آج پھرسے دھڑکن تیز ہے


آج پھرسے دھڑکن
تیز ہے
مجھے ڈر سا لگ رہا ہے
پھر عجب بے چینی
اور انجانا خوف ہر جگہ
نگاہیں بوجھل ہیں

خیالات  قید و بند میں
دل کا دماغ سے
ہے رشتہ منقطع
راستے بےگانے ہیں
رشتے سب ہی انجانے ہیں
محفل تنہائی کی علمبردار ہے
اور تنہائی گویا
شہنائی کی مانند

دوستوں کی شکایتیں پھر سے
عروج پہ ہیں
اور ساتھ قریبی
عزیزوں کے شکوے بھی
کے صاحب پھر   
عشق میں ہیں       
گفتگو میں اسکا ذ کر
لازم پھر سے ہے

اجالوں میں گونجتی ہے
اندھیروں میں ناچتی ہے وہ
وہ پھر سے خیالات میں
غیر رسمی مدعو ہے
شاید اسکو چھو کر
کوئی جھونکا
مجھ سے ٹکرایا ہے
جو میری گمنام ہستی کو
 نام دے  گیا

اسی لئے
آج پھرسے دھڑکن
تیز ہے


سّید حارث احمد