Thursday 6 December 2012

عِشق ممنوع ہی ممنوع ہـے


کیا بھتر اور بہلول ھمارے
اعصاب پہ قابض ہیں
ہم کیوں قید و بند میں ہیں
ودیشی کپڑے اور کھلے لہجے
ہمیں دلفریب لگتے ہیں
ننگی ٹانگیں اور کھلے بازو
ہاتھوں میں شراب
بستروں میں شباب
بوس و کنار میں ڈوبے لمحات
بہت دلکش کیوں محسوس ہوتے ہیں


رشتوں کی اہمیت کا قتلِ عام کرتے ہـوۓ
جس کام کو ہمارا معاشرہ
منسوخ کرتا ہـے
اٗس کام کو نمایاں یہ لوگ کرتے ہیں
تنگ کپڑے اور پرجوش لمحات
اِک طرف
یہ کھلے عام
بے وفائی کا درس دیتے ہیں
بھروسہ توڑنے کے لۓ
عِشق کا نام لیتے ہیں
اٗسے بدنام کرتے ہیں


اگر اپنے حّصے کی طرف
نظر کرو
ہمیں 'شمع' نظر آتی ہے
'تنہائیاں' اور 'ہوائیں' بھی
مجھے آج بھی 'دشت' و 'چاند گرھن'
اور
'ان کہی'  'نادان نادیہ'
یاد آتی ہیں
'الفا براؤ چارلی' اور 'دھواں' کی کہانی
'ہمسفر' اور 'قیدِ تنہائی
'دوراہا' کا دور آج بھی باقی ہے
جب 'قدوسی کی بیوہ' میں
حِنا آٹھ کردار نبھاتی ہے
اِس بات کی دلیل ہے
کہ
ہم آج بھی باقی ہیں


طنزو مزاح سے لیکر
رومانی افسانوں تک
انور مقصود سے لیکر بجیاء تک
قاضی واجد سے فیصل قریشی تک
روحی بانو سے
صنم بلوچ تک
ہمارا دامن آج بھی
مالا مال ہـے
تو پھر کیوں کسی 'ممنوع' اشیاء کا
استعمال کرتے ہیں
اپنے ملک کے خوبصورت لوگوں
کا قتلِ عام کرتے ہیں

ذرا  ســـــــــــــــــــــــــــــــو چیــــــــــۓ

سّید حارث احمد



No comments:

Post a Comment