Friday 28 December 2012

میرا نام شاہ زیب خان ہے




میرا نام شاہ زیب خان ہے
میں اپنی ماں کی جان
بابا کی شان تھا
بہنوں کا لاڈلہ
اور بھائی کا راز دار
دوستوں میں اچھا دوست
رہبر ساتھی اور بھائی رہا
کبھی کرکٹ کبھی موویز
کبھی کمبائن اسٹدیز تو کبھی
درسِ قرآن بھی
یہ تھی میری زندگی کی
کہانی تھوڑی حیران سی


تھی تیّاری شریک ہونے کی
خوشیوں میں ایک دن
تو رستے میں کچھ آوارہ کتّے
کرنے لگے پریشان
جب منع کیا اٗنکو
بھونکنے سے میں نے
تو وہ بھاگ گئے
اور رات میں میری واپسی کے منتظر رہے
اور اپنے سردار کے ہمراہ
مجھ پر حملہ کر ڈالا
مجھے نوچھ نوچھ کر مار ڈالا


منصفوں سے میرا سوال ہے
اور حکرانوں سے بھی
کہ میرا گناہ کیا تھا ؟؟


مجھے ظلم کی بھینٹ چھڑھانے والے کتّے
آج بھی بے باک گھوم رہے ہیں
میری آواز دبانے والے
گلیوں میں آج بھی بھونکتے پھر رہے ہیں
مگر
 میں وہ عزّت دار
اور
با غیرت بھائی ہوں
جسکی بہن آج بھی
پاک دامن اور سرخرو ہے


دلوں میں اِس بر برّیت
کا ملال ضرور ہے
لیکن وجود فخر سے بلند ہے
یہاں عہدے اور مرتبے
بے معنے ہیں
اسکا اندازہ کوئی
میرے غیّور باپ کے دل میں
جھانک کے دیکھے


میرے قاتل آج بھی زندہ ہیں
اور شاید رہیں بھی
مگر میرا غم منانے والوں
یہ یاد رکھنا
جب تک یہ
زمیندار اور جاگیرداروں کے کتّے
حاکم رہیں گے
ہمیں اپنی عزّت کی
حفاظت کرنے کی سزا
ملتی رہے گی
اور تمھیں بھی
ڈیفینس کی سنســان گلیوں میں
مار دیا جائے گا


سیّـد حارث احمد

No comments:

Post a Comment