Tuesday 26 March 2013

میں بہت خوش ہوں



تمھیں ایسا لگتا ہوگا
کہ میں بہت خوش ہوں
میرے اندازِ گفتگو سے
تو
کبھی میری خاموش نظروں سے
کبھی میرے تلخ لہجے سے
کبھی میری نم آنکھوں سے
کبھی کھوکھلے قہقیوں سے
کبھی میرے گنگنانے سے
کبھی بارشوں میں بے ساختہ ناچنے سے
کبھی میرے اکیلے تنہا قبروں کے درمیان بیٹھنے سے
کبھی کسی فقیر کو گلے لگانے سے
کبھی ٹھنڈ ی راتوں میں ساحل پہ دوڑنے سے
کبھی بھری ہوئی بس کی چھت پہ بیٹھنے سے
کبھی کسی اجنبی بارات میں ناچنے سے

تو

کبھی رات کے آخری پہر میں وضو کرنے سے
کبھی زار و قطار سجدوں میں رونے سے
کبھی گھنٹوں کسی ولی اللہ کے مزار پہ بیٹھنے سے
کبھی عرس میں دھمال ڈالنے سے

تو

کبھی کسی طوائف کے کوٹھے پہ جانے سے
کبھی کسی امیر بیوہ کے ساتھ رات گزارنے سے
کبھی خود کو حقارت سے آئینے میں دیکھنے سے

تو

کبھی چارپائی پہ بیٹھ کر چینک چائے پینے سے
کبھی دوستوں کو بیہودہ گالیاں بکنے سے
کبھی پرانی محبوبہ کی جھلک دیکھنے کے بعد رونے سے
کبھی اٗسی بے وفا کے جھوٹے وعدے یاد کرنے سے
کبھی جھوٹی محبت کا سچّا یقین دلانے سے
اور کبھی صرف تمھارے لئے لکھنے سے

اگر تمھیں ایسا لگتا ہے کہ
 میں خوش ہـوں
تو میں بہت خوش ہـوں


سّید حارث احمد

















Monday 4 March 2013

گرد بھری کِتابیں



گرد بھری کِتابیں
طلب گار ہیں
کچھ ایسے پڑھنے والوں کی
جو بہت احتیاط سے
انھیں سنبھال کر
پڑھتے تھے
گویا کوئی روم کی رہنے والی
خوبروٗ حَسین محبوبہ ہـو

اور وہ کِتابیں
دوستوں کو تحفے کے طور پہ
پیش کیا کرتے تھے
مگر
وہ پڑھنے والے
ذوق رکھنے والے
زمین کی تہہ میں
دفن ہـو گئے
اور اپنے پیچھے
اِن گرد بھری
جالوں لگی کتابوں کو
سوگوار چھوڑ گئے
اب یہ
قیامت تک
اِنکی موت پر
بین کرتی رہیں گی
یا کسی قدرتی و ناگہانی
آفت کے نتیجے میں
زمین بوس ہـوجائیں گی

سّید حارث احمد