Sunday 22 September 2013

پشاور دھماکے کے بعد



عجیب شہر ہے یہ بھی
میرے دوست
جہاں انساں بھی بستے ہیں
اور کہنے کو ہی سہی
مسلماں بھی بستے ہیں
اور ساتھ
کئی رنگ و نسل اور
دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی

ہے حکمِ خدا
کہ دنیا دی ہے اٗس نے
اپنی عبادت کے لئے

مگر سْوال ہے یہ خدا سے
کہ جگہ پھر بتلادے
کیوں کہ کچھ
شریعت کے ٹھیکیداروں نے
نہ مسجد چھوڑی نہ گِرجا گھر

اب باقی رہ گئی
اِک جگہ
جسے اہلِ علم قبر کہتے ہیں
اب ڈر ہے
اِن لوگوں سے
کہ کہیں جب یہ تھک جائیں
مسجد اور گرجا گھروں سے
تو قبروں کا رْخ نہ کر بیٹھیں

اور امن کی آس لئے
ہم قبروں میں بھی
سہمے کانپتے
فرشتوں کا ہاتھ تھامے
بیٹھے رہیں ۔ ۔


سّیـد حارث احمد

Thursday 12 September 2013

ایک نظم



اسے بد نصیبی کہیں
یا
محض ایک اتّفاق
کہ پرایا کیا گیا اِک پرندہ
اپنے ہی گھونسلے سے
اور پھر اٗسکو
آزادی کے نام پر
جِلا بخشی گئی
اور
ہمیشہ ایک روایتی احساسات
اور چند
شیرنی بھرے الفاظ سے
اسکو دلاسہ دے کر
اسے انجان بادلوں میں
پرواز کے لئے
تنہا چھوڑ کر
اسی گھونسلے کے قریبی پرندے
نئے پرندوں کے ہمراہ
اڑان کر رہے ہیں
وہ تنہا پرندہ انھیں
دیکھ رہا ہے
رو بھی رہا ہے
اور ضبط کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے
اڑے جارہا ہے
مگر جب اسے
اِک الوداعی تقریب میں
خطاب کے لئے مدعو کیا گیا
تو اس نے خود اپنے پَر کاٹ دیئے
اور رسمی ہر اعزازات سے
سبکدوش ہوگیا ۔ ۔ ۔

سّید حارث احمد


Monday 2 September 2013

عید کی تیسری صبح



عید کی تیسری صبح
جب خوشیاں اپنے آپکو
آنگن سے سمیٹتے ہوئے
دوبارہ ھمیں
اسی آگ میں ڈھکیل رہی تھیں
جس سے ہم
بہت دعا اور منّتوں کے بعد
ایک بدحواسی والی نیند
کی طرف بڑھے تھے
ھمیں بلا رہی تھی
اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ
اب پھر سے وہی بارش برسنے والی ہے
جس نے
گاڑھے لال رنگ سے
سب کے ساتھ ہولی کھیلی تھی
وہ دوبارہ کھیلی جائیگی
اور اس سے بھیگنے کے بعد
پھر سے ھمیں
پرانے قبرستانوں کی گیلی مٹّی کی
سوندھی خوشبو سے
نا چاھتے ہوئے بھی
فیضیاب ہونا پڑے گا
اور وہاں پر کھیلتے ہوئے
قبروں کو
اونچ نیچ کا پہاڑ بناتے ہوئے
دلیر بچوں کو
پانچ روپے کا سکّہ دے کر
پھر سے
ایک بد حواسی والی نیند کی
دعا کرانی ہوگی
اور نم آنکھوں کے ساتھ
عید کا انتطار کرنا ہو گا ۔ ۔ ۔

سّید حارث احمد