Sunday 29 December 2013

رنگ برنگی قبروں میں



رنگ برنگی قبروں میں
الگ الگ نام کے کتبے
اور مختلف جنس کی ارواح
ایک دوسرے سے
مقابلہ کرتے ہوئے
بازی لگا رہی ہیں
کہ
دیکھو آج میرا اپنا کوئی آئیگا
میری قبر کے پاس
کچھ دیر ٹھرے گا
اور پھر
میرے ساتھ گزارے لمحات
اور میری محبت کو یاد کر کے
اپنی آنکھیں نم کرے گا
اور مجھے بھی اْداس کرے گا
میں بے بسی سے صرف
تماشہ دیکھتا رہونگا
کچھ بھی کہہ نیہں سکونگا
اٗسکے آنسو بھی پوچھ نیہں سکونگا
اور وہ میری قبر کی مٹْی کو
اپنے ہاتھوں سے تھپتھپائے گا
مغرب کی آذان ہوتے ہی
اور خود کو
 صبر کی تلقین کر تے ہوئے
چلا جائے گا
اور میں فتح کے آنسو لئے
اگلی بازی تک
اْداس رہونگا ۔ ۔ ۔

سیــّد حارث احمد



Wednesday 11 December 2013

چھپے خیالات



کاش میرے ذہن میں
چھپے خیالات کو
قوت گویائی حاصل ہوتی
تو وہ صفحے پر
کالی چادر اوڑھ کر
اپنے چہرے پہ
لال سْرخی مل کر
ایک اندھیرے کمرے میں
تیز آواز سے
چلّا چلّا کر روتے
اور اپنے رونے کی آواز سے
ایک سْر تشکیل دیتے
اور اْس پر برہنہ ہو کر
رقص کرتے ہوئے
اپنے پائوں کی ایڑیاں
زخمی کر کہ
فرش پہ
 اپنے ٹپکتے خون سے
ایک قید پرندے کی تصویر بناتے
اور اسے سزائے موت دے کر
زندگی بھر
اس کا ســـــوگ مناتے ۔ ۔ ۔     

سّیـد حارث احمد