Monday 27 January 2014

نظم: بیروت کی خوشبو آرہی ہے



مجھے ناجانے کیوں
کراچی کی ہواؤں میں
بیروت کی خوشبو آرہی ہے

کیوں وہی گلیاں نظر آرہی ہیں
جہاں شور برپاہ ہے
لوگ بھاگ رہے ہیں
عزّتیں لوٹی جارہی ہیں
جوان رو رہے ہیں
بوڑھوں کے سر
سجدوں میں کاٹے جارہے ہیں
مسجدوں سے آذان کی آواز
بہت تیز آرہی ہے
ہر طرف سائرن بج رہے ہیں
پھولوں کی ٹوکریوں میں
معصوم بچّوں کے
کٹے اعضاء اٹھائے جارہے ہیں

کفن کا رنگ لال ہوگیا ہے
آسمان سے پانی کی جگہ
خون برس رہا ہے
پھلوں کے اندر سے
خون رس رہا ہے
پورا شہر قبرستان سا
محسوس ہورہا ہے
نمازِجنازہ کو فرض نماز
قرار دیا جاچکا ہے
آہوں اور سسکیوں کو
قومی ترانہ اور
شہیدوں کو پٹھے کپڑوں کو
اپنا جھنڈا بنا دیا گیا ہے

مجھے ناجانے کیوں
کراچی کی ہواؤں میں
بیروت کی خوشبو آرہی ہے

چھوٹے بچّے
اپنی مردہ ماؤں کی چھاتی سے
دودھ پینے کی کوشش کررہے ہیں
جوان آسماں کی طرف نگاہ کر کے
کسی عیسیٰ کے منتظر ہیں
اور لوگ
ریڈ کراس کی دی گئی
ڈبل روٹی کے پیچھے قتل ہورہے ہیں
حدِ نظر تک لاشوں کا ڈھیر ہے
اور لوگ موت سے بھاگتے ہوئے
اپنے پیاروں کے چہروں کو
آنسوؤں کے ساتھ رونڈھتے ہوئے
 گمشدہ منزل کی جانب
بس بھاگے جارہے ہیں

مجھے ناجانے کیوں
کراچی کی ہواؤں میں
بیروت کی خوشبو آرہی ہے

سؔیــد حارث احمد