Sunday 28 December 2014

نظم:میں خلوص کا درخت ہوں

نظم : میں خلوص کا درخت ہوں

میں خلوص کا درخت ہوں
لوگ آتے گئے
اور
اس سے پھل توڑ توڑ کھاتے رہے
میں چلاتا گیا
بلبلاتا گیا
وہ ان سنا کرتے رہے
میں پھل دیتا رہا
وہ کھاتے رہے
میں چپ چاپ سہتا گیا

میرے کچھ دوست بھی
میری سخاوت کا ذکر سن کر
میرے نزدیک آئے
ایک نظردل بھر کے دیکھنے کے بعد
ایک بناؤٹی مسکراہٹ دیتے ہوئے
مجھے توڑتے رہے
مجھے کھاتے رہے
میں چلاتا گیا
بلبلاتا گیا
وہ ان سنا کرتے رہے
میں پھل دیتا رہا
وہ کھاتے رہے
میں چپ چاپ سہتا گیا . . .

خلوص کی اس برسات میں
میرے کچھ عزیز بھی
ہاتھ  دھونے آئے
مجھے سہلا کہ
میرے پاس کچھ دیر ٹھر کے
تھوڑا اندھیرا پا کے
مجھے نوچتے رہے
جنجھورتے رہے
میں چلاتا گیا
بلبلاتا گیا
وہ ان سنا کرتے رہے
میں پھل دیتا رہا
وہ کھاتے رہے
میں چپ چاپ سہتا گیا . . .

اور اسطرح
وہ سارا خلوص کھا گئے
ایک سڑا پھل تک نہیں چھوڑا
آخر میں
میرے درخت کی لکڑیوں کو
وراثتی نظام کے تحت
آپس میں بانٹ لیا
اور جڑ تک اکھاڑ کے لے گئے
میں چلاتا گیا
بلبلاتا گیا
وہ ان سنا کرتے رہے
اور زمیں میں موجود
میں اپنی باقیات کو دیکھ دیکھ کر
تڑپتے ہوئے
چپ چاپ سہتا گیا . . .

سید حارث احمد

افضال صاحب کے نام

افضال احمد سید کے نام . . .

اگر شاعری کوئ مذہب ہوتا
اور پیغمبر کا انتخاب
الہامی نہیں بلکہ
جمبہوری ہوتا
اور مجھے آزاد انسان
ہونے کے ناطے
پیغمبر کے چناؤ کا حق ہوتا
تو میں بغیر کچھ سوچے سمجھے
اپنا پیغمبر
افضال احمد سید کو چنتا

اور پھر بغیر کوئ سوال کرے
ان کی اطاعت کرتا
اور مذہبوں کی تاریخ کے پیش نظر
کفر کے فتوے بھی
برداشت کرتا
اور اس دور کے زمینی خداؤں کی
سزاؤں کا بھی متحمل ہوتا

تبلیغ کے لئے
ان کے مجمعوؤں/تراجم کو
الہامی کلام کی طرح عام کرتا
کبھی چھینی ہوئ تاریخ
تو کبھی روکوکو اور دوسری دنیا سے
اسباق لیتا
دو زبانوں میں سزائے موت سے
حوالے دیتا
خیمہ سیاہ کو مشعل راہ بناتا

سگریٹ نوشی کو عظیم سنت قرار دیتا
انکی سادگی پر قصیدے لکھتا
اور انکی سچائ و ایمانداری کی
قسمیں اٹھاتا
اور شہروں کے بڑے بڑے قبیلے
انکی گہری آنکھوں کو دیکھ کر
ان پر ایمان لے آتے

اگر شاعری کوئ مذہب ہوتا
تو میں بغیر کچھ سوچے سمجھے
اپنا پیغمبر
افضال احمد سید کو چنتا

سید حارث احمد