بہت خاموش سا
انجان تھا معصوم بھی
اشکوں کو سمندر کو روکتا ہوا
نقوش پہ طاری تھا حال
اور ماضی کا فسانہ بھی
ہاتھوں میں لۓ اّجرت حقیر سی
روح بھی کچھ علیل سی
ضبط اب بےحال تھا
نگاہ میں ہمت نہ رہی
ذْلتوں کا پہاڑ ہے روبرو
قلب میں طوفان برپاہ ہے
گویا کانوں میں اذان برپاہ ہے
کوچے اب تنگ نطر آتے ہیں
کچھ اپنے اپنا سایہ چھپاتے ہوۓ
آنکھوں میں نفرت دل میں پیار لۓ ہوۓ
لعن طعن کی صدائیں
گونجتی ہوئی ہواؤں میں
بےبس ضمیر اور فکرِمعاش
لۓ مفلسی آنکھوں میں
یہی ہے سفید پوشی اور میرا حال
سّید حارث احمد