میرا نام شاہ زیب خان ہے
میں اپنی ماں کی جان
بابا کی شان تھا
بہنوں کا لاڈلہ
اور بھائی کا راز دار
دوستوں میں اچھا دوست
رہبر ساتھی اور بھائی رہا
کبھی کرکٹ کبھی موویز
کبھی کمبائن اسٹدیز تو کبھی
درسِ قرآن بھی
یہ تھی میری زندگی کی
کہانی تھوڑی حیران سی
تھی تیّاری شریک ہونے کی
خوشیوں میں ایک دن
تو رستے میں کچھ آوارہ کتّے
کرنے لگے پریشان
جب منع کیا اٗنکو
بھونکنے سے میں نے
تو وہ بھاگ گئے
اور رات میں میری واپسی کے منتظر رہے
اور اپنے سردار کے ہمراہ
مجھ پر حملہ کر ڈالا
مجھے نوچھ نوچھ کر مار ڈالا
منصفوں سے میرا سوال ہے
اور حکرانوں سے بھی
کہ میرا گناہ کیا تھا ؟؟
مجھے ظلم کی بھینٹ چھڑھانے والے کتّے
آج بھی بے باک گھوم رہے ہیں
میری آواز دبانے والے
گلیوں میں آج بھی بھونکتے پھر رہے ہیں
مگر
میں وہ عزّت دار
اور
با غیرت بھائی ہوں
جسکی بہن آج بھی
پاک دامن اور سرخرو ہے
دلوں میں اِس بر برّیت
کا ملال ضرور ہے
لیکن وجود فخر سے بلند ہے
یہاں عہدے اور مرتبے
بے معنے ہیں
اسکا اندازہ کوئی
میرے غیّور باپ کے دل میں
جھانک کے دیکھے
میرے قاتل آج بھی زندہ ہیں
اور شاید رہیں بھی
مگر میرا غم منانے والوں
یہ یاد رکھنا
جب تک یہ
زمیندار اور جاگیرداروں کے کتّے
حاکم رہیں گے
ہمیں اپنی عزّت کی
حفاظت کرنے کی سزا
ملتی رہے گی
اور تمھیں بھی
ڈیفینس کی سنســان گلیوں میں
مار دیا جائے گا
سیّـد حارث احمد