سڑکوں
پہ لاشیں شمار ہیں
گھروں
میں ماتم اور
فضاء
سوگوار ہے
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
ہے
ایک طرف غم مجھے
ڈرون
سے مرنے والوں کا
تو
ایک طرف وجہ ہیں اپنے میر جعفر بھی
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
مذ
ہبی آزادی کا قتلِ عام ہے
اپنا
عقیدہ بھی بچانا یہاں حرام ہے
زائرین
کو زیارت تو نہیں شہادت ملنا آسان ہے
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
ہر
طرف غربت و افلاس ہے
گٗردے
اور اعضاء تو دور ٹھہرے
اب
تو اولاد بھی براۓ فروخت ہے
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
میں
آخر کون سا غم بھلاؤں
عرفہ
چلی گئی ملالہ بھی آئی زد میں
ہمارے
شاہ زیب کو بھی مار ڈالا تم نے
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
مسجدیں
تک ہوگئیں غیر محفوظ
بازار
میں گٗم ہو گیئں رونقیں
نگاہیں
نم اور دل یہاں خوف زدہ
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
یہاں
دامنی کی طرح
بے
شمار عزّتیں دم توڑ گئیں
اگر
یہ ظلم ہے ہمارے دوست
تو
انصاف کے لئے کشمیر کی بہنیں بھی ہیں منتظر
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
ناامییدی
تو کٗفر ہے
شاید
یہی اِک امید ہے
نئی
شروعات میں بھی خون سے رنگے ہاتھ ہیں
پھر
بھی
تمہیں
نیا سال مبارک
سیّـد حارث احمد
No comments:
Post a Comment