یہ الفاظ
اور انداز
اب بے جان و جسم ہیں
رونق و گل و آفتاب
کہیں گمشدہ ہے
شجر اپنی ٹہنیوں کو
ایک فوجی محافظ کی طرح
پابند کیے ہوئے ہے
کہ یہاں
خوشیوں کے گیت گانا
ممنوع قرار دیا جا چکا ہے
اور
ان پھولوں کا رکھوالا
خوشبو سے محبت کرنے والا
انکا احساس کرنے والا
نفرت کی آگ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے
اور خوشبو کو من و مٹی تلے
دفنا دیا گیا ہے
اور بے حس و بے مرّوت درندے
خوشبو کو مٹا کر
خود کو معّطر سمجھ رہے ہیں
سؔیــد حارث احمد