کاش میرے ذہن میں
چھپے خیالات کو
قوت گویائی حاصل ہوتی
تو وہ صفحے پر
کالی چادر اوڑھ کر
اپنے چہرے پہ
لال سْرخی مل کر
ایک اندھیرے کمرے میں
تیز آواز سے
چلّا چلّا کر روتے
اور اپنے رونے کی آواز سے
ایک سْر تشکیل دیتے
اور اْس پر برہنہ ہو کر
رقص کرتے ہوئے
اپنے پائوں کی ایڑیاں
زخمی کر کہ
فرش پہ
اپنے ٹپکتے خون سے
ایک قید پرندے کی تصویر بناتے
اور اسے سزائے موت دے کر
زندگی بھر
اس کا ســـــوگ مناتے ۔ ۔ ۔
سّیـد حارث احمد
No comments:
Post a Comment