عید کی تیسری صبح
جب خوشیاں اپنے آپکو
آنگن سے سمیٹتے ہوئے
دوبارہ ھمیں
اسی آگ میں ڈھکیل رہی تھیں
جس سے ہم
بہت دعا اور منّتوں کے بعد
ایک بدحواسی والی نیند
کی طرف بڑھے تھے
ھمیں بلا رہی تھی
اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ
اب پھر سے وہی بارش برسنے والی ہے
جس نے
گاڑھے لال رنگ سے
سب کے ساتھ ہولی کھیلی تھی
وہ دوبارہ کھیلی جائیگی
اور اس سے بھیگنے کے بعد
پھر سے ھمیں
پرانے قبرستانوں کی گیلی مٹّی کی
سوندھی خوشبو سے
نا چاھتے ہوئے بھی
فیضیاب ہونا پڑے گا
اور وہاں پر کھیلتے ہوئے
قبروں کو
اونچ نیچ کا پہاڑ بناتے ہوئے
دلیر بچوں کو
پانچ روپے کا سکّہ دے کر
پھر سے
ایک بد حواسی والی نیند کی
دعا کرانی ہوگی
اور نم آنکھوں کے ساتھ
عید کا انتطار کرنا ہو گا ۔ ۔ ۔
سّید حارث احمد
No comments:
Post a Comment