اسے بد نصیبی کہیں
یا
محض ایک اتّفاق
کہ پرایا کیا گیا اِک پرندہ
اپنے ہی گھونسلے سے
اور پھر اٗسکو
آزادی کے نام پر
جِلا بخشی گئی
اور
ہمیشہ ایک روایتی احساسات
اور چند
شیرنی بھرے الفاظ سے
اسکو دلاسہ دے کر
اسے انجان بادلوں میں
پرواز کے لئے
تنہا چھوڑ کر
اسی گھونسلے کے قریبی پرندے
نئے پرندوں کے ہمراہ
اڑان کر رہے ہیں
وہ تنہا پرندہ انھیں
دیکھ رہا ہے
رو بھی رہا ہے
اور ضبط کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے
اڑے جارہا ہے
مگر جب اسے
اِک الوداعی تقریب میں
خطاب کے لئے مدعو کیا گیا
تو اس نے خود اپنے پَر کاٹ دیئے
اور رسمی ہر اعزازات سے
سبکدوش ہوگیا ۔ ۔ ۔
سّید حارث احمد
No comments:
Post a Comment