Thursday 1 November 2012

آج پھرسے دھڑکن تیز ہے


آج پھرسے دھڑکن
تیز ہے
مجھے ڈر سا لگ رہا ہے
پھر عجب بے چینی
اور انجانا خوف ہر جگہ
نگاہیں بوجھل ہیں

خیالات  قید و بند میں
دل کا دماغ سے
ہے رشتہ منقطع
راستے بےگانے ہیں
رشتے سب ہی انجانے ہیں
محفل تنہائی کی علمبردار ہے
اور تنہائی گویا
شہنائی کی مانند

دوستوں کی شکایتیں پھر سے
عروج پہ ہیں
اور ساتھ قریبی
عزیزوں کے شکوے بھی
کے صاحب پھر   
عشق میں ہیں       
گفتگو میں اسکا ذ کر
لازم پھر سے ہے

اجالوں میں گونجتی ہے
اندھیروں میں ناچتی ہے وہ
وہ پھر سے خیالات میں
غیر رسمی مدعو ہے
شاید اسکو چھو کر
کوئی جھونکا
مجھ سے ٹکرایا ہے
جو میری گمنام ہستی کو
 نام دے  گیا

اسی لئے
آج پھرسے دھڑکن
تیز ہے


سّید حارث احمد

No comments:

Post a Comment