Sunday 23 December 2012

وہ پیاری سی بچّی


میرے پڑوس میں رہتی ہـے
ایک بڑی پیاری سی بچّی
مجھے صبح
بہت اِترا کے کہتی ہـے
آج میرے ابّو
سائیکل لائیں گے
ہم اْسکو چلائیں گے
کہیں دور
گھومنے جائیں گے


مگر جب شام آئی تو
ہماری گلی کی طرف
گاڑی کی آواز آئی
میں اپنے گھر سے  باہر نکلا
میں اْس معصوم کو کھلکھلاتا دیکھنے کیلۓ
جب آگے بڑھا تو
اٌسکی چیخ سنائی دی
میں بہت ڈر گیا کہ
ناجانے کیا ہـوگیا ہے


وہ میری طرف بھاگتی آئی
روتی بلبلاتی کہتی
انکل میرے ابّو آئیں ہیں
وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتے
انھیں آپ کہہ دیں
مجھے خواہش نہیں کوئی
نہ سائیکل نہ کوئی گڑیا
میرے ابّو سے کہہ دیں
مجھ سے بات تو کریں
وہ چٌپ چاپ لیٹے ہیں
مجھے گلے سے لگائیں
مجھے پھر سے چٹکی بلائیں


ابھی تو بہت سی کہانیاں باقی ہیں
جو اِنکو سنانی ہیں
میں نے آج بھی ٹیسٹ میں
پہلی پوزیشن لی ہے
مجھے انعام بھی ملا ہے
ابّو آپ اٹھ جائیں
ورنہ میں یہ سب کس کو بتاؤں گی


رات میں جب مجھ کو
ڈر لگتا ہـے
وہ مجے اپنے قریب سٌلاتے ہیں
مجھے لوری سٌناتے ہیں
وہ روز صبح
اپنی ویسپا پر
مجھے اسکول چھوڑنے جاتے ہیں
مجھے اب کون چھوڑے گا


مجھے گڑیا نہیں
نہ ہی کوئی تٌحفہ چاہیۓ
مجھے میرے ابّو چاہیئں
وہ بچّی اچانک
مجھ سے روتے روتے کہتی ہے
انکل انکل ۔ ۔ ۔ ۔
اِس لال رنگ کو دھو دیں
اور
میرے ابّو کو
اِس نینــــد سے جگا دیں

  

سیّـــد حارث احمد




No comments:

Post a Comment